شامی صدر کا دورہ امارات، یہ ہو کیا رہا ہے؟

IQNA

شامی صدر کا دورہ امارات، یہ ہو کیا رہا ہے؟

7:18 - March 23, 2022
خبر کا کوڈ: 3511549
بشار الاسد کا دس سال بعد عرب امارات میں ہونے والا استقبال یہ بتا رہا ہے کہ خطے کی حقیقتوں کو قبول کرنے کا موسم چل رہا ہے۔
شامی صدر امارات میں اتر رہے ہیں اور ان کا عرب امارات کی قیادت پرتپاک استقبال کر رہی ہے۔ اس دورے میں انہوں نے متحدہ عرب امارات کے نائب وزیراعظم اور دبئی کے حکمراں محمد بن راشد المکتوم اور ولی عہد ابوظہبی شیخ محمد بن زائد النہیان سے ملاقاتیں کیں۔ شامی صدر کا عرب امارات کا دس سال بعد دورہ ہوا ہے۔ جب بشار الاسد کا بطور شام کے قانونی صدر عرب امارات میں استقبال دیکھ رہا تھا تو مجھے وہ وقت یاد آرہا تھا، جب ایک بڑا صحافی سوشل میڈیا کے اپنے اکاوئنٹ سے ہر رات بشار الاسد کے دمشق سے بھاگنے کی پیشگوئی کرکے سوتا تھا۔ ہم اسے کہہ رہے تھے کہ بشار کہیں نہیں جائے گا، ادھر ہی رہے گا، وہ جانے مراکش سے لے کر مصر تک کی مثالیں ایک ہی کمنٹ میں دے دیا کرتا تھا۔ وہ یہ نہیں جان سکا کہ جس قیادت کی جڑیں عوام میں ہیں اور جو اپنی عوام سے محبت کرتے ہیں، وہ کبھی ملک سے رات کے اندھیرے میں ڈالروں بھرے بیگ لے کر فرار نہیں ہوتے۔
 
ہم اس پر مزید بات کریں گے، مگر ایک خبر اور ایسی ہے، جس کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں ہے۔ معروف امریکی اخبار وال اسٹریٹ جنرل نے امریکی انتظامیہ کے بعض سینیئر حکام کے حوالے سے اطلاع دی ہے کہ وائٹ ہاؤس حالیہ ہفتوں میں صدر جو بائیڈن، سعودی عرب کے عملاً رہنماء ولی عہد محمد بن سلمان اور متحدہ عرب امارات کے رہنماء شیخ محمد بن زائد النہیان سے فون پر بات کرانے کی کوشش کرتا رہا ہے، تاہم اسے ابھی تک اس میں کامیابی نہیں ملی ہے۔ اخبار کے مطابق سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے رہنماؤں نے اس موقع پر امریکی صدر سے فون پر بات کرنے کی درخواست کو مسترد کر دیا۔ سچ پوچھیں تو جب یہ خبر میں سوشل میڈیا پر دیکھی تو مجھے لگا جیسے کسی نے ہمارے وزیراعظم کو امریکی صدر کی کال کے انتظار پر طعنہ زنی کی ہے۔ مگر جب یہ خبر ڈی ڈبلیو، انڈیپنڈنٹ اور آر ٹی نیوز نے بھی دی تو تجسس ہوا کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔؟
 
اصل میں جب سے روس نے یوکرین پر حملہ کیا ہے اور روس کی آئل و گیس انڈیسٹری امریکی پابندیوں کی زد میں آئی ہے تو تیل و گیس کی دنیا بھر کو سپلائی بڑی مشکل ہوگئی ہے، جس سے تیل کی قیمتیں 130 ڈالر فی بیرل تک پہنچ گئی ہیں، جو 14 سال کی بلند ترین سطح ہے۔ اگر تیل کی قیمتیں اسی رفتار سے بڑھتی ہیں تو بہت مسائل پیدا ہو جائیں گے اور دنیا بھر میں سپلائی کا نظام بھی متاثر ہوگا، کیونکہ موجودہ برآمدات سے جب روس کی سپلائی رکے گی تو باقی ممالک اگر پیداوار نہیں بڑھاتے تو بحرانی صورتحال ہو جائے گی۔ امریکہ یہ چاہتا ہے کہ روس پر بھی کاری ضرب لگائی جائے اور سپلائی چین اس طرح سے بحال رہے کہ ریٹ بڑھنے نہ پائے۔ ویسے اس کے اثرات دنیا بھر پر ہو رہے ہیں اور یورپ کے کچھ ممالک بالخصوص جرمنی میں حالات بڑی تیزی سے بدل رہے ہیں اور مہنگائی بہت زیادہ ہو رہی ہے۔ روسی گیس کی بندش کا مطلب سستے ترین توانائی کے ذریعے سے محرومی ہے۔ کچھ لوگوں نے تو کھانے پینے کی اشیاء کی ذخیرہ اندوزی کا بھی لکھا ہے، کیونکہ گندم سے بنی چیزین یوکرین سے ہی درآمد کی جاتی ہیں۔
 
سعودی عرب اور عرب امارات امریکی اشاروں پر چلتے ہیں، مگر یہاں بات مال بنانے کی ہے۔ محمد بن سلمان کو جمال خاشقچی کے معاملے میں ذلیل کرنے کا کافی رنج ہے۔ ایسی صورتحال میں دونوں نے مال بنانے کو ترجیح دی کہ ہمارے لیے تو اربوں ڈالر کمانے کا بہترین موقع ہے۔ سعودی معیشت ویسے بھی گراوٹ کا شکار ہے اور بڑی تیزی سے جمع پونجی کو کھاتی جا رہی ہے۔ ایسے میں سعودی عرب کے لیے تیل کی قیمتوں میں ہونے والا اضافہ ایک نعمت ہے۔ ویسے یہیں پر امریکی مفادات کے نگران اسرائیل کا کردار بھی یورپ کے کردار سے بہت مختلف رہا۔ اسرائیل نے دیگر یورپی اتحادیوں کی طرح  امریکہ کی ہاں میں ہاں ملانے کی بجائے ذرا مختلف کردار ادا کرکے خود کو روس کے مقابل آنے سے روکا ہے، بلکہ روس کا دورہ کرکے اپنا کردار الگ سے متعین کیا ہے، اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔
 
جس طرح سے سعودی عرب اور عرب امارات نے ان خبروں کی بنیاد پر ٹرمپ کی کال نہیں سنی اور اپنے ممالک کے مالی مفادات کو تحفظ دیا۔ کاش یہ ممالک عرب اور مسلمانوں کے مفادات کے لیے بھی تھوڑے سے غیرت مند ہوتے؟ اور عرب امارات اور بحرین کی مسلم سرزمینوں پر اسرائیلی قیادت کے استقبال نہ ہو رہے ہوتی۔؟ آج مظلوم فلسطینیوں کے لیے تھوڑی سی قربانی دی جاتی تو اس سے ان کی مشکلات میں کمی آسکتی تھی، مگر افسوس ایسا نہیں ہوا۔ وہاں پر نہ صرف ٹرمپ کی ہاں میں ہاں ملائی گئی بلکہ وہ اقدامات بھی کیے گئے، جو شائد اس کے خیال میں بھی ممکن نہیں تھے۔
 
بشار الاسد کا دس سال بعد عرب امارات میں ہونے والا استقبال یہ بتا رہا ہے کہ خطے کی حقیقتوں کو قبول کرنے کا موسم چل رہا ہے۔ دہشتگرد بھیج کر، جتھے بنا کر، اسلحہ و بارود استعمال کرکے کوئی تبدیلی نہیں لائی جا سکتی۔ امریکہ کے ترجمان  کا بیان آہی گیا کہ ہم بشار الاسد کو قانونی حیثیت دینے کی اس واضح کوشش سے سخت مایوس اور پریشان ہیں۔ ویسے مایوس اور پریشان ہونا بنتا بھی ہے، کیونکہ جب فرمانبردار خودسری کرنے لگیں تو پریشانی کی بات ہے۔ امریکہ کو افغانستان سے انخلاء اور یوکرین پر رشین حملے کے اپنے ردعمل کو دیکھتے مزید ایسی خودسریوں کے لیے تیار رہنا ہوگا، کیونکہ اب ہر کسی کو یہ پتہ چل گیا ہے کہ امریکہ ہمارے لیے جنگ نہیں کرے گا۔
 
ڈاکٹر ندیم عباس
نوٹ: اس مضمون میں دی گئی رائے مصنف کی ہے ایکنا کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
┄┅══
نظرات بینندگان
captcha