مباهله میں گفتگو پر قرآنی تاکید

IQNA

قرآن کیا کہتا ہے / 22

مباهله میں گفتگو پر قرآنی تاکید

8:00 - July 26, 2022
خبر کا کوڈ: 3512372
تہران ایکنا- واقعہ «مباهله» جسمیں نجران کے مسیحی اپنی حقانیت پر اصرار کررہے تھے دوبارہ آیت نازل ہوئی جسمیں گفتگو اور مشترکات پر زور دیا گیا ہے۔

ایکنا نیوز- مباهله اس حالت کو کہتے ہیں جب طرفین اپنی اپنی حقانیت پر اصرار کریں اور پھر طے کریں کہ دونوں ملکر لعنت کرتے ہیں کہ جھوٹے پر خدا کا قہر نازل ہو۔

واقعه مباهله رسول گرامی(ص) کو نجران کے عیسائیوں کے چیلنج سے شروع ہوا اور پھر انہوں نے پسپائی کی جہاں انکے کچھ لوگوں نے اسلام پر ایمان بھی لایا اور یوں واقعہ اختتام پذیر ہوا۔

انکا ایک وفد جنکی تعداد تقریبا دس تھی وہ مدینه آئے اور پھر اپنی حقانیت کے دعوے پر تاکید کرتے رہے جہاں نوبت مباہلہ تک پہنچا:

«فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنْفُسَنَا وَأَنْفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَتَ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ؛ پس جو تم سے [عیسی] بحث کریں جب ک تم علم [وحی کے زریعے سے] رکھتے ہو، اصرار اور ضد کریں تو کہو: آئیے ہم اپنے بیٹیوں کو تم اپنے بیٹوں کو، ہم اپنی عورتوں کو تم اپنی عورتوں کو، ہم اپنی جانوں کو تم اپنی جانوں کو دعوت دیں، پھر ایکدوسرے پر لعنت کرتے ہیں اور خدا کی ان پر لعنت کی دعا کرتے ہیں»(آل عمران، 61).

مباهله کے دن صبح سویرے حضرت رسول خدا محمد مصطفی(ص) اهل بیت(ع) کے ہمراہ جنمیں انکی بیٹی حضرت فاطمه(س)، انکے وصی و جانشین حضرت علی(ع) اور نواسے امام حسن(ع) و امام حسین(ع) مدینہ سے باہر نکلتے ہیں. ابوحارثه عیسائی ٹیم کے سربراہ جب دیکھتے ہیں کہ حضرت محمد(ص) کے ساتھ کون لوگ ہیں تو کہتے ہیں: خدا کی قسم ایسے بیٹھے ہیں جیسے انبیاء مباہلے میں بیھٹتے ہیں اور پھر کہا: اگر محمد حق پر نہ ہوتا تو اپنے عزیز ترین افراد کو ساتھ نہ لاتے خدا کی قسم یہ نفرین کریں تو سال نہ لگے کہ روئے زمین پر کوئی نصرانی باقی نہ رہے.

قرآن؛ مخالفوں سے خفا یا گفتگو؟

خوارزمی یونیورسٹی کے استاد اور محقق رسول رسولی‌پور اس واقعے کے حوالے سے سوره آل عمران کی آیات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ سخت مقابلے قرآنی اصول نہیں بلکہ دو طرفہ افھام و تفہیم ہے تاکہ ہدایت کے اصل راستے کو واضح کرسکے۔

انکا کہنا تھا کہ جب نجران کے عیسائی مباہلے سے پسپائی اختیار کرتے ہیں تو یہ آیت نازل ہوتی ہے « قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ؛ آئیے اس بات کی طرف جو تم اور ہم میں مشترک ہے [اور تمام آسمانی کتابوں اور رسولوں نے انکو تبلیغ کی ہیں] کہ خدا کے علاوہ کسی کی پرستش نہ کریں، اور کسی کو اسکا شریک قرار نہ دیں اور خدا کی جگہ کسی کو مقتدر نہ بنائیں»(آل عمران، 64) اور پھر رسول اللہ(ص) فرماتے ہیں کہ اب جب آپ مباہلہ نہیں کرتے تو آجاو مشترکات کی طرف آتے ہیں.

آیت سے واضح ہوتا ہے کہ مباہلہ سے دست برداری پر قرآن ایک اور رویہ اپناتا ہے اور یہ نہیں کہتا کہ پھر کبھی مقابلہ کرتے ہیں بلکہ انکو مشترکات کی طرف دعوت دیتا ہے میرے خیال میں تمام مقدس کتابوں کی سیرت یہی رہی ہے کہ وہ مشترکات کی طرف دعوت دیتی ہیں۔

مقدس کتابوں میں ایک اور چیز نظر آتی ہے کہ رسول گرامی(ص) کی توہین اور تکفیر کی جاتی ہے مگر وہ سب کو گفتگو کی طرف دعوت دیتے ہیں. بنیادی طور پر مقدس کتابوں کی آمد کا فلسفہ یہی ہے کہ تعلقات ایجاد کریں اور امن و دوستی عام کریں اور انسانوں کو پریشانی سے نکال کر دوستی کی طرف لائے اور ان سے کہے کہ ایک راستہ ہے، خدا ہے، نظارت ہے کبھی نا امید نہ ہوجائے اور امید دلانا انبیاء کا شیوہ رہا ہے بالخصوص جب کہا جاتا ہے کہ «یا ایها الناس» تو اس سے بہت امید پیدا ہوجاتی ہے۔/

متعلق خبر
نظرات بینندگان
captcha